نقاب چہرے سے اس کے کبھی سرکتا تھا
تو کالے بادلوں میں چاند سا چمکتا تھا
اسے بھی خطۂ سر سبز مل گیا شاید
وہ ایک ابر کا ٹکڑا جو کل بھٹکتا تھا
وہ میرے ساتھ جو چلتا تھا گھر کے آنگن میں
تو ماہتاب بھی پلکیں بہت جھپکتا تھا
یہ کہہ کے برق بھی برسات میں بہت روئی
کہ ایک پیڑ چمن میں غضب مہکتا تھا
غم حیات نے بخشے ہیں سارے سناٹے
کبھی ہمارے بھی پہلو میں دل دھڑکتا تھا
جو ہو گئی ہے کبھی ابر کی نوازش بھی
تو سائبان کئی دن تلک ٹپکتا تھا
اکیلے پار اتر کے بہت ہے رنج مجھے
میں اس کا بوجھ اٹھا کر بھی تیر سکتا تھا
غزل
نقاب چہرے سے اس کے کبھی سرکتا تھا
عرفان احمد