ایک زہریلی رفاقت کے سوا ہے اور کیا
تیرے میرے بیچ وحشت کے سوا ہے اور کیا
اب نہ ہے وہ نرم لہجہ اور نہ ہیں وہ قہقہے
تیرا ملنا اک اذیت کے سوا ہے اور کیا
زعم تھا مجھ کو بھی تیری چاہتوں کا لیکن اب
میرے چہرے پر ندامت کے سوا ہے اور کیا
ایک زہر آمیز چپ ہے اور آنکھوں میں جلن
تیرے دل میں اب کدورت کے سوا ہے اور کیا
زخم جو تو نے دیے تجھ کو دکھا تو دوں مگر
پاس تیرے بھی نصیحت کے سوا ہے اور کیا
غزل
ایک زہریلی رفاقت کے سوا ہے اور کیا
عرفان احمد