اب دلوں میں کوئی گنجائش نہیں ملتی حیاتؔ
بس کتابوں میں لکھا حرف وفا رہ جائے گا
حیات لکھنوی
چہرے کو تیرے دیکھ کے خاموش ہو گیا
ایسا نہیں سوال ترا لا جواب تھا
حیات لکھنوی
ہر صدا سے بچ کے وہ احساس تنہائی میں ہے
اپنے ہی دیوار و در میں گونجتا رہ جائے گا
حیات لکھنوی
مدعا ہم اپنا کاغذ پر رقم کر جائیں گے
وقت کے ہاتھوں میں اپنا فیصلا رہ جائے گا
حیات لکھنوی
سلسلہ خوابوں کا سب یونہی دھرا رہ جائے گا
ایک دن بستر پہ کوئی جاگتا رہ جائے گا
حیات لکھنوی
یہ التجا دعا یہ تمنا فضول ہے
سوکھی ندی کے پاس سمندر نہ جائے گا
حیات لکھنوی
یہ جذبۂ طلب تو مرا مر نہ جائے گا
تم بھی اگر ملوگے تو جی بھر نہ جائے گا
حیات لکھنوی