یہ جذبۂ طلب تو مرا مر نہ جائے گا
تم بھی اگر ملوگے تو جی بھر نہ جائے گا
یہ التجا دعا یہ تمنا فضول ہے
سوکھی ندی کے پاس سمندر نہ جائے گا
جس زاویے سے چاہو مری سمت پھینک دو
مجھ سے ملے بغیر یہ پتھر نہ جائے گا
دم بھر کے واسطے ہیں بہاریں سمیٹ لو
ویرانیوں کو چھوڑ کے منظر نہ جائے گا
یوں خوش ہے اپنے گھر کی فضاؤں کو چھوڑ کر
جیسے وہ زندگی میں کبھی گھر نہ جائے گا
اس کو بلندیوں میں مسلسل اچھالیے
لیکن وہ اپنی سطح سے اوپر نہ جائے گا
شہر مراد مل بھی گیا اب تو کیا حیاتؔ
مایوسیوں کا دل سے کبھی ڈر نہ جائے گا
غزل
یہ جذبۂ طلب تو مرا مر نہ جائے گا
حیات لکھنوی