EN हिंदी
حسن اکبر کمال شیاری | شیح شیری

حسن اکبر کمال شیر

11 شیر

بڑوں نے اس کو چھین لیا ہے بچوں سے
خبر نہیں اب کیا ہو حال کھلونے کا

حسن اکبر کمال




بنائے جاتا تھا میں اپنے ہاتھ کو کشکول
سو میری روح میں خنجر اترتا جاتا تھا

حسن اکبر کمال




دل میں ترے خلوص سمویا نہ جا سکا
پتھر میں اس گلاب کو بویا نہ جا سکا

حسن اکبر کمال




دیے بجھاتی رہی دل بجھا سکے تو بجھائے
ہوا کے سامنے یہ امتحان رکھنا ہے

حسن اکبر کمال




ایک دیا کب روک سکا ہے رات کو آنے سے
لیکن دل کچھ سنبھلا تو اک دیا جلانے سے

حسن اکبر کمال




گئے دنوں میں رونا بھی تو کتنا سچا تھا
دل ہلکا ہو جاتا تھا جب اشک بہانے سے

حسن اکبر کمال




کل یہی بچے سمندر کو مقابل پائیں گے
آج تیراتے ہیں جو کاغذ کی ننھی کشتیاں

حسن اکبر کمال




کیا ترجمانیٔ غم دنیا کریں کہ جب
فن میں خود اپنا غم بھی سمویا نہ جا سکا

حسن اکبر کمال




نہ ٹوٹے اور کچھ دن تجھ سے رشتہ اس طرح میرا
مجھے برباد کر دے تو مگر آہستہ آہستہ

حسن اکبر کمال