وہ شخص تو مجھے حیران کرتا جاتا تھا
کہ زخم دے کے مجھے ان کو بھرتا جاتا تھا
دریچہ کھولتے جو ہاتھ ان میں تھی زنجیر
گلی سے ایک مسافر گزرتا جاتا تھا
بنائے جاتا تھا میں اپنے ہاتھ کو کشکول
سو میری روح میں خنجر اترتا جاتا تھا
اسے ملال سے تکتی تھیں گاؤں کی گلیاں
وہ نغمہ گر جو سیے لب گزرتا جاتا تھا
بنائے جاتا تھا اس کو حسیں نہ جانے کون
بدن وہ پھول نہ تھا اور نکھرتا جاتا تھا
تلاش زر میں جواں کوچ کرتے جاتے تھے
کمالؔ گاؤں کا سب حسن مرتا جاتا تھا
غزل
وہ شخص تو مجھے حیران کرتا جاتا تھا
حسن اکبر کمال