ہو تیری یاد کا دل میں گزر آہستہ آہستہ
کرے یہ چاند صحرا میں سفر آہستہ آہستہ
بہت تیزی سے دنیا چھین لے گی جب تجھے مجھ سے
تو پھر اس دل میں ایسے مت اتر آہستہ آہستہ
کہ ہم دھوکے میں رکھیں دوستوں کو خوش کلامی سے
ہمیں آ ہی گیا یہ بھی ہنر آہستہ آہستہ
کہیں سے ایک ویرانی کا سایا پھیلتا آیا
ہوئے بے رنگ سب دیوار و در آہستہ آہستہ
نہ ٹوٹے اور کچھ دن تجھ سے رشتہ اس طرح میرا
مجھے برباد کر دے تو مگر آہستہ آہستہ
یہ خاموشی یہاں کا حسن ہے رکھنا خیال اس کا
کمالؔ اس دشت ویراں سے گزر آہستہ آہستہ
غزل
ہو تیری یاد کا دل میں گزر آہستہ آہستہ
حسن اکبر کمال