پایا جب سے زخم کسی کو کھونے کا
سیکھا فن ہم نے بے آنسو رونے کا
بڑوں نے اس کو چھین لیا ہے بچوں سے
خبر نہیں اب کیا ہو حال کھلونے کا
ہم سفروں سے ترک سفر کو کہتا ہوں
ڈر ہے راہ میں ایسی باتیں ہونے کا
رو دینا بھی مجبوری تو ہے لیکن
لطف الگ ہے دل میں آنسو بونے کا
میٹھے خواب بھی ہم دیکھیں گر موسم ہو
لمبی گہری میٹھی نیندیں سونے کا
میرے لیے کیا میرے دم آخر تک ہے
کھیل یہ سارا ہونے اور نہ ہونے کا
غزل
پایا جب سے زخم کسی کو کھونے کا
حسن اکبر کمال