دل میں ترے خلوص سمویا نہ جا سکا
پتھر میں اس گلاب کو بویا نہ جا سکا
باقی ہیں اس پہ اب بھی پرانے غموں کے عکس
چہرہ تو آنسوؤں سے بھی دھویا نہ جا سکا
پھولوں کے جسم چھیدنے دالوں سے آج تک
خوشبو کو برچھیوں میں پرویا نہ جا سکا
کیا ترجمانیٔ غم دنیا کریں کہ جب
فن میں خود اپنا غم بھی سمویا نہ جا سکا
شب خوں کی رسم ایسی پڑی اہل شہر میں
لوگوں سے لمحہ بھر کو بھی سویا نہ جا سکا
آنکھوں کی بستیوں میں بھی کیا قحط اشک تھا
چاہا کمالؔ روئیں تو رویا نہ جا سکا
غزل
دل میں ترے خلوص سمویا نہ جا سکا
حسن اکبر کمال