EN हिंदी
دل میں ترے خلوص سمویا نہ جا سکا | شیح شیری
dil mein tere KHulus samoya na ja saka

غزل

دل میں ترے خلوص سمویا نہ جا سکا

حسن اکبر کمال

;

دل میں ترے خلوص سمویا نہ جا سکا
پتھر میں اس گلاب کو بویا نہ جا سکا

باقی ہیں اس پہ اب بھی پرانے غموں کے عکس
چہرہ تو آنسوؤں سے بھی دھویا نہ جا سکا

پھولوں کے جسم چھیدنے دالوں سے آج تک
خوشبو کو برچھیوں میں پرویا نہ جا سکا

کیا ترجمانیٔ غم دنیا کریں کہ جب
فن میں خود اپنا غم بھی سمویا نہ جا سکا

شب خوں کی رسم ایسی پڑی اہل شہر میں
لوگوں سے لمحہ بھر کو بھی سویا نہ جا سکا

آنکھوں کی بستیوں میں بھی کیا قحط اشک تھا
چاہا کمالؔ روئیں تو رویا نہ جا سکا