غزل میں حسن کا اس کے بیان رکھنا ہے
کمال آنکھوں میں گویا زبان رکھنا ہے
جہاز راں ہنر و حوصلہ نہ لے جا ساتھ
ہوا کے رخ پہ اگر بادبان رکھنا ہے
بھرا تو ہے مرا ترکش مگر یہ دل ہے گداز
سو عمر بھر مجھے خالی کمان رکھنا ہے
دیے بجھاتی رہی دل بجھا سکے تو بجھائے
ہوا کے سامنے یہ امتحان رکھنا ہے
بہت ہنسے مرے اس فیصلے پہ سایہ نشیں
کہ سر پہ دھوپ کو اب سائبان رکھنا ہے
ہو انتظار بہاراں جہاں نہ رنج خزاں
کمالؔ ایسا بیاباں مکان رکھنا ہے
غزل
غزل میں حسن کا اس کے بیان رکھنا ہے
حسن اکبر کمال