آج کا خط ہی اسے بھیجا ہے کورا لیکن
آج کا خط ہی ادھورا نہیں لکھا میں نے
حامد مختار حامد
گر نہ جائے ترے معیار سے انداز حروف
یوں کبھی نام بھی تیرا نہیں لکھا میں نے
حامد مختار حامد
مقام ضبط غم عشق میں وہ پیدا کر
کہ تو خوشی کو نہ ترسے تجھے خوشی ترسے
حامد مختار حامد
مجھ سے یہ پیاس کا صحرا نہیں دیکھا جاتا
روز اب خواب میں دریا نہیں دیکھا جاتا
حامد مختار حامد
تو ہنسی لے کے مری آنکھ کو آنسو دے دے
مجھ سے سوکھا ہوا دریا نہیں دیکھا جاتا
حامد مختار حامد
عمر ہی تیری گزر جائے گی ان کے حل میں
تیرا بچہ جو سوالات لیے بیٹھا ہے
حامد مختار حامد
یہ بزرگوں کی روا داری کے پژمردہ گلاب
آبیاری چاہتے ہیں ان میں چنگاری نہ رکھ
حامد مختار حامد
یہ جفاؤں کی سزا ہے کہ تماشائی ہے تو
یہ وفاؤں کی سزا ہے کہ پئے دار ہوں میں
حامد مختار حامد