چاہے کچھ ہو زیر احساں اپنی ناداری نہ رکھ
پتھروں سے بھر کے یہ شیشے کی الماری نہ رکھ
جنگ تو جیتے کہ ہارے یہ الگ اک بات ہے
ذہن و دل پر خوف دشمن کا مگر طاری نہ رکھ
آڑی ترچھی کچھ لکیریں ہی ملیں گی شام تک
شہر کے چوراہے پر تو اپنی فن کاری نہ رکھ
یہ بزرگوں کی روا داری کے پژمردہ گلاب
آبیاری چاہتے ہیں ان میں چنگاری نہ رکھ
ہے ترے انصاف کا تیری ترازو سے وقار
باٹ ہلکے ہوں تو آگے چیز بھی بھاری نہ رکھ
زندگی کے آئینہ کی آب ہے حامدؔ خودی
اپنی سانسوں سے جدا احساس خود داری نہ رکھ
غزل
چاہے کچھ ہو زیر احساں اپنی ناداری نہ رکھ
حامد مختار حامد