مآل دل کے لیے آج یوں خودی ترسے
کہ زندگی کے لیے جیسے زندگی ترسے
خرد بدوش ہے تہذیب نو مگر پھر بھی
جنوں بداماں تمدن کو آگہی ترسے
جو اپنا خون جگر پی کے مست ہو جائیں
اب ایسے ظرف پرستوں کو تشنگی ترسے
ہے اب بھی سلسلۂ دوستی جہاں میں مگر
وفا شناس محبت کو دوستی ترسے
مقام ضبط غم عشق میں وہ پیدا کر
کہ تو خوشی کو نہ ترسے تجھے خوشی ترسے
رہ وفا میں مجھے کاش ایسی موت ملے
کہ بعد مرگ مجھے میری زندگی ترسے
جہاں میں اہل سخن کم نہیں مگر حامدؔ
تخیلات حقیقت کو شاعری ترسے
غزل
مآل دل کے لیے آج یوں خودی ترسے
حامد مختار حامد