EN हिंदी
مجھ سے یہ پیاس کا صحرا نہیں دیکھا جاتا | شیح شیری
mujhse ye pyas ka sahra nahin dekha jata

غزل

مجھ سے یہ پیاس کا صحرا نہیں دیکھا جاتا

حامد مختار حامد

;

مجھ سے یہ پیاس کا صحرا نہیں دیکھا جاتا
روز اب خواب میں دریا نہیں دیکھا جاتا

ظرف کا عکس کہیں اور ہی چل کر دیکھیں
آئینوں میں تو یہ چہرہ نہیں دیکھا جاتا

تو ہنسی لے کے مری آنکھ کو آنسو دے دے
مجھ سے سوکھا ہوا دریا نہیں دیکھا جاتا

دل کے اوراق کی تحریر پڑھی جاتی ہے
ان کے دربار میں سجدہ نہیں دیکھا جاتا

پرسش غم کی سبھی رسم ہیں باقی لیکن
ان چراغوں میں اجالا نہیں دیکھا جاتا

اہمیت جہد مسلسل کی نہیں کم حامدؔ
صرف تقدیر کا لکھا نہیں دیکھا جاتا