مجھ سے یہ پیاس کا صحرا نہیں دیکھا جاتا
روز اب خواب میں دریا نہیں دیکھا جاتا
ظرف کا عکس کہیں اور ہی چل کر دیکھیں
آئینوں میں تو یہ چہرہ نہیں دیکھا جاتا
تو ہنسی لے کے مری آنکھ کو آنسو دے دے
مجھ سے سوکھا ہوا دریا نہیں دیکھا جاتا
دل کے اوراق کی تحریر پڑھی جاتی ہے
ان کے دربار میں سجدہ نہیں دیکھا جاتا
پرسش غم کی سبھی رسم ہیں باقی لیکن
ان چراغوں میں اجالا نہیں دیکھا جاتا
اہمیت جہد مسلسل کی نہیں کم حامدؔ
صرف تقدیر کا لکھا نہیں دیکھا جاتا
غزل
مجھ سے یہ پیاس کا صحرا نہیں دیکھا جاتا
حامد مختار حامد