اپنی تقدیر کا شکوہ نہیں لکھا میں نے
خود کو محروم تمنا نہیں لکھا میں نے
اے قلم کرنا مرے ہاتھ کی لغزش کو معاف
تجھ سے شاہوں کا قصیدہ نہیں لکھا میں نے
گر نہ جائے ترے معیار سے انداز حروف
یوں کبھی نام بھی تیرا نہیں لکھا میں نے
ہوں اسی جرم کی پاداش میں پیاسا شاید
تپتے صحراؤں کو دریا نہیں لکھا میں نے
آج کا خط ہی اسے بھیجا ہے کورا لیکن
آج کا خط ہی ادھورا نہیں لکھا میں نے
جو نہ پہچان سکا وقت کی نبضیں حامدؔ
اس مسیحا کو مسیحا نہیں لکھا میں نے
غزل
اپنی تقدیر کا شکوہ نہیں لکھا میں نے
حامد مختار حامد