EN हिंदी
گوپال متل شیاری | شیح شیری

گوپال متل شیر

9 شیر

اب شکوۂ سنگ و خشت کیسا
جب تیری گلی میں آ گیا ہوں

گوپال متل




فرق یہ ہے نطق کے سانچے میں ڈھل سکتا نہیں
ورنہ جو آنسو ہے در شاہوار نغمہ ہے

گوپال متل




فطرت میں آدمی کی ہے مبہم سا ایک خوف
اس خوف کا کسی نے خدا نام رکھ دیا

گوپال متل




خدا گواہ کہ دونوں ہیں دشمن پرواز
غم قفس ہو کہ راحت ہو آشیانے کی

گوپال متل




کیا کیجئے کشش ہے کچھ ایسی گناہ میں
میں ورنہ یوں فریب میں آتا بہار کے

گوپال متل




میرا ساقی ہے بڑا دریا دل
پھر بھی پیاسا ہوں کہ صحرا ہوں میں

گوپال متل




مجھے زندگی کی دعا دینے والے
ہنسی آ رہی ہے تری سادگی پر

گوپال متل




پھر ایک شعلۂ پر پیچ و تاب بھڑکے گا
کہ چند تنکوں کو ترتیب دے رہا ہوں میں

گوپال متل




ترک تعلقات خود اپنا قصور تھا
اب کیا گلہ کہ ان کو ہماری خبر نہیں

گوپال متل