دور فلک کے شکوے گلے روزگار کے
ہیں مشغلے یہی دل ناکردہ کار کے
یوں دل کو چھیڑ کر نگۂ ناز جھک گئی
چھپ جائے کوئی جیسے کسی کو پکار کے
سینے کو اپنے اپنا گریباں بنا کے ہم
قائل نہیں ہیں پیرہن تار تار کے
کیا کیجئے کشش ہے کچھ ایسی گناہ میں
میں ورنہ یوں فریب میں آتا بہار کے
اک دل اور اس پہ حسرت ارماں کا یہ ہجوم
کیا کیا کرم ہیں مجھ پہ مرے کرد گار کے
ہم کو تو روز حشر کا بھی کچھ یقیں نہیں
کیا منتظر ہوں وعدۂ فردائے یار کے
کس دل سے تیرا شکوۂ بیداد کر سکیں
مارے ہوئے ہیں ہم نگۂ شرمسار کے
غزل
دور فلک کے شکوے گلے روزگار کے
گوپال متل