جو شعاع لب ہے موج نو بہار نغمہ ہے
خامشی بھی آپ کی آئینہ دار نغمہ ہے
گوش اک مدت سے محروم سماعت ہے مگر
دل عجب ناداں ہے اب تک اعتبار نغمہ ہے
فرق یہ ہے نطق کے سانچے میں ڈھل سکتا نہیں
ورنہ جو آنسو ہے در شاہوار نغمہ ہے
منکر ساز مسرت ہوں تو کافر ہوں مگر
ہم نفس مضراب غم پر انحصار نغمہ ہے
اے کہ شکوہ تھا تجھے سنگیں مزاجی کا مری
دیکھ اس پتھر میں بھی موج شرار نغمہ ہے
غزل
جو شعاع لب ہے موج نو بہار نغمہ ہے
گوپال متل