زبان رقص میں ہے اور جھومتا ہوں میں
کہ داستان محبت سنا رہا ہوں میں
نہ پوچھ مجھ سے مری بے خودی کا افسانہ
کسی کی مست نگاہی کا ماجرا ہوں میں
کہاں کا ضبط محبت کہاں کی تاثیریں
تسلیاں دل مضطر کو دے رہا ہوں میں
پھر ایک شعلۂ پر پیچ و تاب بھڑکے گا
کہ چند تنکوں کو ترتیب دے رہا ہوں میں
تمہارے عشق میں مٹ کر تمہیں دکھا دوں گا
نگاہ ناز کا ایماں سمجھ گیا ہوں میں
غزل
زبان رقص میں ہے اور جھومتا ہوں میں
گوپال متل