تیرا خلوص دل تو محل نظر نہیں
پر کچھ تو ہے جو تیری زباں میں اثر نہیں
اب وہ نہیں ہے جلوۂ شام و سحر کا رنگ
تیرا جمال شامل حسن نظر نہیں
ہے مرکز نگاہ ابھی تک وہ آستاں
یہ اور بات ہے کہ مجال سفر نہیں
اڑ بھی چلیں تو اب وہ بہار چمن کہاں
ہاں ہاں نہیں مجھے ہوس بال و پر نہیں
ترک تعلقات خود اپنا قصور تھا
اب کیا گلہ کہ ان کو ہماری خبر نہیں
چپ چاپ سہ رہے ہیں کہ اپنوں کا جور ہے
اب خوب جانتے ہیں فغاں کارگر نہیں
کچھ ہے تو اپنی زود یقینی سے ہے گلہ
تجھ سے تو اب کلام بھی اے چارہ گر نہیں
غزل
تیرا خلوص دل تو محل نظر نہیں
گوپال متل