اپنے انجام سے ڈرتا ہوں میں
دل دھڑکتا ہے کہ سچا ہوں میں
میرا ساقی ہے بڑا دریا دل
پھر بھی پیاسا ہوں کہ صحرا ہوں میں
اور کس کو ہو مرے زہر کی تاب
اپنے ہی آپ کو ڈستا ہوں میں
کیوں کروں پیروی گوتم و قیس
جب بھرے گھر میں بھی تنہا ہوں میں
تھا وہ کچھ ہم سے زیادہ ہی مریض
جس کا دعویٰ تھا مسیحا ہوں میں
کیا نہیں ہے کوئی مے ہوش گداز
جتنی پیتا ہوں سنبھلتا ہوں میں
غزل
اپنے انجام سے ڈرتا ہوں میں
گوپال متل