EN हिंदी
گنیش بہاری طرز شیاری | شیح شیری

گنیش بہاری طرز شیر

11 شیر

اب میں حدود ہوش و خرد سے گزر گیا
ٹھکراؤ چاہے پیار کرو میں نشے میں ہوں

گنیش بہاری طرز




اہل دل کے واسطے پیغام ہو کر رہ گئی
زندگی مجبوریوں کا نام ہو کر رہ گئی

گنیش بہاری طرز




اے گردشو تمہیں ذرا تاخیر ہو گئی
اب میرا انتظار کرو میں نشے میں ہوں

گنیش بہاری طرز




ارض دکن میں جان تو دلی میں دل بنی
اور شہر لکھنؤ میں حنا بن گئی غزل

گنیش بہاری طرز




بزم یاراں ہے یہ ساقی مے نہیں تو غم نہ کر
کتنے ہیں جو مے کدہ بر دوش ہیں یاروں کے بیچ

گنیش بہاری طرز




داغؔ کے شعر جوانی میں بھلے لگتے ہیں
میرؔ کی کوئی غزل گاؤ کہ کچھ چین پڑے

گنیش بہاری طرز




دل غمزدہ پہ گزر گیا ہے وہ حادثہ کہ مرے لیے
نہ تو غم رہا نہ خوشی رہی نہ جنوں رہا نہ پری رہی

گنیش بہاری طرز




پتھروں کے دیس میں شیشے کا ہے اپنا وقار
دیوتا اپنی جگہ اور آدمی اپنی جگہ

گنیش بہاری طرز




رات کی رات بہت دیکھ لی دنیا تیری
صبح ہونے کو ہے اب طرزؔ کو سو جانے دے

گنیش بہاری طرز