اہل دل کے واسطے پیغام ہو کر رہ گئی
زندگی مجبوریوں کا نام ہو کر رہ گئی
ہو گئے برباد تیری آرزو سے پیشتر
زیست نذر گردش ایام ہو کر رہ گئی
توبہ توبہ اس نگاہ مست کی سرشاریاں
دیر پا توبہ بھی غرق جام ہو کر رہ گئی
اس نگاہ ناز کو تو کوئی کچھ کہتا نہیں
اور محبت کی نظر بدنام ہو کر رہ گئی
ہر خوشی تبدیل غم میں ہو گئی تیرے بغیر
صبح مجھ تک آئی بھی تو شام ہو کر رہ گئی
روبرو ان کے کہاں تھی فرصت اظہار غم
لب کو اک جنبش برائے نام ہو کر رہ گئی
ان کے جلووں کی سحر تو طرزؔ دنیا لے گئی
گیسوؤں کی شام اپنے نام ہو کر رہ گئی
غزل
اہل دل کے واسطے پیغام ہو کر رہ گئی
گنیش بہاری طرز