رہ عشق میں غم زندگی کی بھی زندگی سفری رہی
کبھی نذر خاک سفر رہی کبھی موتیوں سے بھری رہی
تری اک نگاہ سے ساقیا وہ بہار بے خبری رہی
گل تر وہی گل تر رہا وہی ڈال ڈال ہری رہی
تری بے رخی کی نگاہ تھی کہ جو ہر خطا سے بری رہی
مری آرزو کی شراب تھی کہ جو جام جام بھری رہی
دم مرگ بھی مری حسرتیں حد آرزو سے نہ بڑھ سکیں
اسی کالے دیو کی قید میں مرے بچپنے کی پری رہی
دل غمزدہ پہ گزر گیا ہے وہ حادثہ کہ مرے لیے
نہ تو غم رہا نہ خوشی رہی نہ جنوں رہا نہ پری رہی
وہی طرزؔ تجھ پہ رحیم ہے یہ اسی کا فیض کریم ہے
کہ اساتذہ کے بھی رنگ میں جو غزل کہی وہ کھری رہی
غزل
رہ عشق میں غم زندگی کی بھی زندگی سفری رہی
گنیش بہاری طرز