بڑھانا ہاتھ پکڑنے کو رنگ مٹھی میں
تو تتلیوں کے پروں کا دراز ہو جانا
فیاض فاروقی
جب ان کی بزم میں ہر خاص و عام رسوا ہے
عجیب کیا ہے اگر میرا نام رسوا ہے
فیاض فاروقی
جگنو ہوا میں لے کے اجالے نکل پڑے
یوں تیرگی سے لڑنے جیالے نکل پڑے
فیاض فاروقی
کیسے ممکن ہے کہ قصے جس سے سب وابستہ ہوں
وہ چلے اور ساتھ اس کے داستاں کوئی نہ ہو
فیاض فاروقی
راہ میں اس کی چلیں اور امتحاں کوئی نہ ہو
کیسے ممکن ہے کہ آتش ہو دھواں کوئی نہ ہو
فیاض فاروقی
تجھ سے دل میں جو گلہ تھا وہ نہ لائے لب پر
پھر سے ہم بھر گئے زخموں کو ہرا کیا کرتے
فیاض فاروقی
یہ سوچا ہے کہ تجھ کو سوچنا اب چھوڑ دوں گا میں
یہ لغزش مجھ سے لیکن بے ارادہ ہو ہی جاتی ہے
فیاض فاروقی