کسی کو سوچنا دل کا گداز ہو جانا
ہوا کی چھیڑ سے پتوں کا ساز ہو جانا
کبھی وہ گفتگو جیسے کہ کچھ چھپا ہی نہیں
کبھی وہ بولتی آنکھوں کا راز ہو جانا
بڑھانا ہاتھ پکڑنے کو رنگ مٹھی میں
تو تتلیوں کے پروں کا دراز ہو جانا
کبھی تو غفلتیں سجدوں میں اور کبھی یوں بھی
کہ اس کو سوچ ہی لینا نماز ہو جانا
وہ ڈوبتا ہوا سورج وہ کارواں کا غبار
حقیقتوں کا بھی پل میں مجاز ہو جانا
کواڑ کھلتے ہوں جیسے کسی خزانے کے
وہ خواب خواب سی آنکھوں کا باز ہو جانا
غزل
کسی کو سوچنا دل کا گداز ہو جانا
فیاض فاروقی