شکوہ ہم تجھ سے بھلا تیز ہوا کیا کرتے
گھر تو اپنے ہی چراغوں سے جلا کیا کرتے
تم تو پہلے ہی وفاؤں سے گریزاں تھے بہت
تم سے ہم ترک تعلق کا گلہ کیا کرتے
گل میں رنگت تھی نظاروں میں جوانی تجھ سے
ہم ترے بعد بہاروں کا بھلا کیا کرتے
تجھ سے دل میں جو گلہ تھا وہ نہ لائے لب پر
پھر سے ہم بھر گئے زخموں کو ہرا کیا کرتے
ہم تو کر دیتے گلہ تجھ سے نہ آنے کا ترے
گھونٹ دیتی تھی پر امید گلا کیا کرتے
جس کی الفت میں ہر اک چیز لٹا دی فیاضؔ
ہم کو سمجھا گئے آداب وفا کیا کرتے
غزل
شکوہ ہم تجھ سے بھلا تیز ہوا کیا کرتے
فیاض فاروقی