جگنو ہوا میں لے کے اجالے نکل پڑے
یوں تیرگی سے لڑنے جیالے نکل پڑے
سچ بولنا محال تھا اتنا کہ ایک دن
سورج کی بھی زبان پہ چھالے نکل پڑے
اتنا نہ سوچ مجھ کو ذرا دیکھ آئینہ
آنکھوں کے گرد حلقے بھی کالے نکل پڑے
محفل میں سب کے بیچ تھا ذکر بہار کل
پھر جانے کیسے تیرے حوالے نکل پڑے
غزل
جگنو ہوا میں لے کے اجالے نکل پڑے
فیاض فاروقی