کہانی ہو کوئی بھی تیرا قصہ ہو ہی جاتی ہے
کوئی تصویر دیکھوں تیرا چہرہ ہو ہی جاتی ہے
تری یادوں کی لہریں گھیر لیتی ہیں یہ دل میرا
زمیں گھر کر سمندر میں جزیرہ ہو ہی جاتی ہے
گئی شب چاند جیسا جب چمکتا ہے خیال اس کا
تمنا میری اک چھوٹا سا بچہ ہو ہی جاتی ہے
سجا ہے تاج میرے سر پہ لیکن یہ نظر میری
جو اس کی سمت جاتی ہے تو کاسہ ہو ہی جاتی ہے
جتن کرتا ہوں کتنے روک لوں سیلاب آنکھوں میں
مگر تعمیر میری یہ شکستہ ہو ہی جاتی ہے
یہ سوچا ہے کہ تجھ کو سوچنا اب چھوڑ دوں گا میں
یہ لغزش مجھ سے لیکن بے ارادہ ہو ہی جاتی ہے
جو ہے فیاضؔ اس کو دیکھ کر مبہوت حیرت کیا
تڑپتی ہے جو بجلی آنکھ خیرہ ہو ہی جاتی ہے

غزل
کہانی ہو کوئی بھی تیرا قصہ ہو ہی جاتی ہے
فیاض فاروقی