راہ میں اس کی چلیں اور امتحاں کوئی نہ ہو
کیسے ممکن ہے کہ آتش ہو دھواں کوئی نہ ہو
اس کی مرضی ہے وہ مل جائے کسی کو بھیڑ میں
اور کبھی ایسے ملے کہ درمیاں کوئی نہ ہو
جگمگاتا ہے ستارہ بن کے تب امید کا
بجھ گئے ہوں سب دیے اور کہکشاں کوئی نہ ہو
خانۂ دل میں وہ رہتا کب کسی کے ساتھ ہے
جلوہ گر ہوتا ہے وہ جب میہماں کوئی نہ ہو
کیسے ممکن ہے کہ قصے جس سے سب وابستہ ہوں
وہ چلے اور ساتھ اس کے داستاں کوئی نہ ہو
سارے عالم پر وہ لکھ دیتا ہے اس کا نام جب
کوئی خود کو یوں مٹا لے کہ نشاں کوئی نہ ہو
بن کے لشکر ساتھ ہو جاتا ہے وہ فیاضؔ جب
ہم سفر کوئی نہ ہو اور کارواں کوئی نہ ہو
غزل
راہ میں اس کی چلیں اور امتحاں کوئی نہ ہو
فیاض فاروقی