EN हिंदी
راہ میں اس کی چلیں اور امتحاں کوئی نہ ہو | شیح شیری
rah mein uski chalen aur imtihan koi na ho

غزل

راہ میں اس کی چلیں اور امتحاں کوئی نہ ہو

فیاض فاروقی

;

راہ میں اس کی چلیں اور امتحاں کوئی نہ ہو
کیسے ممکن ہے کہ آتش ہو دھواں کوئی نہ ہو

اس کی مرضی ہے وہ مل جائے کسی کو بھیڑ میں
اور کبھی ایسے ملے کہ درمیاں کوئی نہ ہو

جگمگاتا ہے ستارہ بن کے تب امید کا
بجھ گئے ہوں سب دیے اور کہکشاں کوئی نہ ہو

خانۂ دل میں وہ رہتا کب کسی کے ساتھ ہے
جلوہ گر ہوتا ہے وہ جب میہماں کوئی نہ ہو

کیسے ممکن ہے کہ قصے جس سے سب وابستہ ہوں
وہ چلے اور ساتھ اس کے داستاں کوئی نہ ہو

سارے عالم پر وہ لکھ دیتا ہے اس کا نام جب
کوئی خود کو یوں مٹا لے کہ نشاں کوئی نہ ہو

بن کے لشکر ساتھ ہو جاتا ہے وہ فیاضؔ جب
ہم سفر کوئی نہ ہو اور کارواں کوئی نہ ہو