آندھیوں کا خواب ادھورا رہ گیا
ہاتھ میں اک سوکھا پتا رہ گیا
فاروق شفق
آج سوچا ہے جاگوں گا میں رات میں
کچے پھل سا مجھے توڑتا کون ہے
فاروق شفق
اپنی لغزش کو تو الزام نہ دے گا کوئی
لوگ تھک ہار کے مجرم ہمیں ٹھہرائیں گے
فاروق شفق
ہونے والا تھا اک حادثہ رہ گیا
کل کا سب سے بڑا واقعہ رہ گیا
فاروق شفق
اس سیہ خانے میں تجھ کو جاگنا ہے رات بھر
ان ستاروں کو نہ بے مقصد ہتھیلی پر بجھا
فاروق شفق
سامنے جھیل ہے جھیل میں آسماں
آسماں میں یہ اڑتا ہوا کون ہے
فاروق شفق
شہر کا منظر ہمارے گھر کے پس منظر میں ہے
اب ادھر بھی اجنبی چہرے نظر آنے لگے
فاروق شفق
شہر میں جینا ہے چلنا دو رخی تلوار پر
آدمی کس سے بچے کس کی طرف داری کرے
فاروق شفق
سنا ہے ہر گھڑی تو مسکراتا رہتا ہے
مجھے بھی جذب ذرا کر کے جسم و جاں میں ملا
فاروق شفق