EN हिंदी
ہونے والا تھا اک حادثہ رہ گیا | شیح شیری
hone wala tha ek hadsa rah gaya

غزل

ہونے والا تھا اک حادثہ رہ گیا

فاروق شفق

;

ہونے والا تھا اک حادثہ رہ گیا
کل کا سب سے بڑا واقعہ رہ گیا

رات آنگن میں اتری نہیں چاندنی
چاند شاخوں میں الجھا ہوا رہ گیا

ہم نے کہہ سن لیا مطمئن ہو گئے
اور اب کہنے سننے کو کیا رہ گیا

صبح ہوگی کہانی بنے گی کوئی
زندگی کا یہی مسئلہ رہ گیا

میں نے نفرت کی کھائی پہ پل رکھ دیا
پھر بھی ٹوٹا ہوا سلسلہ رہ گیا

سب ڈرامے کے کردار گھر چل دیے
سامنے ایک پردہ پڑا رہ گیا

یہ بھی تکلیف دہ اک سزا ہی تو ہے
شاخ میں ایک پتا ہرا رہ گیا

میں کسی کے یہاں وقت کیا کاٹتا
اپنا ہی گھر شفقؔ ڈھونڈھتا رہ گیا