گھر کی چیزوں سے یوں آشنا کون ہے
اس خرابے میں آیا گیا کون ہے
صبح کی شوخ کرنوں کو کیا ہے خبر
رات بھر اوس میں بھیگتا کون ہے
پھول آنکھوں کے چپ سے اٹھا لیجیے
پیچھے مڑ کے یہاں دیکھتا کون ہے
دھول اوڑھے صحیفے بتائیں بھی کیا
رات بھر طاق دل میں جلا کون ہے
سامنے جھیل ہے جھیل میں آسماں
آسماں میں یہ اڑتا ہوا کون ہے
پوچھنے کیا لگے رک کے دیوار سے
شہر میں سچ تو یہ ہے کھڑا کون ہے
آج سوچا ہے جاگوں گا میں رات میں
کچے پھل سا مجھے توڑتا کون ہے

غزل
گھر کی چیزوں سے یوں آشنا کون ہے
فاروق شفق