EN हिंदी
کھڑکیوں پر ملگجے سائے سے لہرانے لگے | شیح شیری
khiDkiyon par malgaje sae se lahrane lage

غزل

کھڑکیوں پر ملگجے سائے سے لہرانے لگے

فاروق شفق

;

کھڑکیوں پر ملگجے سائے سے لہرانے لگے
شام آئی پھر گھروں میں لوگ گھبرانے لگے

شہر کا منظر ہمارے گھر کے پس منظر میں ہے
اب ادھر بھی اجنبی چہرے نظر آنے لگے

دھوپ کی قاشیں ہرے مخمل پہ ضو دینے لگیں
سائے کمروں سے نکل کر صحن میں آنے لگے

جگنوؤں سے سج گئیں راہیں کسی کی یاد کی
دن کی چوکھٹ پر مسافر شام کے آنے لگے

بوندیاں برسیں ہوا کے بادباں بھی کھل گئے
نیلے پیلے پیرہن سڑکوں پہ لہرانے لگے

سوچتے ہیں کاٹ دیں آنگن کے پیڑوں کو شفقؔ
گھر کی باتیں یہ گلی کوچے میں پھیلانے لگے