پھولوں کو ویسے بھی مرجھانا ہے مرجھائیں گے
کھڑکیاں کھولیں تو سناٹے چلے آئیں گے
لاکھ ہم اجلی رکھیں شہر کی دیواروں کو
شہر نامہ تو بہرحال لکھے جائیں گے
راکھ رہ جائے گی روداد سنانے کے لیے
یہ تو مہمان پرندے ہیں چلے جائیں گے
اپنی لغزش کو تو الزام نہ دے گا کوئی
لوگ تھک ہار کے مجرم ہمیں ٹھہرائیں گے
آج جن جگہوں کی تفریح سے محفوظ ہوں میں
میرے حالات مجھے کل وہاں پہنچائیں گے
راستے شام کو گھر لے کے نہیں لوٹیں گے
ہم تبرک کی طرح راہوں میں بٹ جائیں گے
دن کسی طرح سے کٹ جائے گا سڑکوں پہ شفقؔ
شام پھر آئے گی ہم شام سے گھبرائیں گے

غزل
پھولوں کو ویسے بھی مرجھانا ہے مرجھائیں گے
فاروق شفق