دھیرے دھیرے شام کا آنکھوں میں ہر منظر بجھا
اک دیا روشن ہوا تو اک دیا اندر بجھا
وہ تو روشن قمقموں کے شہر میں محصور تھا
سخت حیرت ہے کہ ایسا آدمی کیوں کر بجھا
اس سیہ خانے میں تجھ کو جاگنا ہے رات بھر
ان ستاروں کو نہ بے مقصد ہتھیلی پر بجھا
ذہن کی آوارگی کو بھی پناہیں چاہیئے
یوں نہ شمعوں کو کسی دہلیز پر رکھ کر بجھا
اور بھی گھر تھے ہوا کی زد پہ بستی میں شفقؔ
میرے ہی گھر کا دیا طوفان میں اکثر بجھا
غزل
دھیرے دھیرے شام کا آنکھوں میں ہر منظر بجھا
فاروق شفق