آندھیوں کا خواب ادھورا رہ گیا
ہاتھ میں اک سوکھا پتا رہ گیا
شہر تو ثابت ہوا شہر خیال
آنکھ میں بس اک دھندلکا رہ گیا
آ گئے بارش کے دن دیوار پر
اک ذرا سا رنگ کچا رہ گیا
کھلکھلا کر دھوپ پیچھے ہٹ گئی
ہوتے ہوتے اک تماشا رہ گیا
راستے اک دوسرے میں کھو گئے
ہاتھ میں سڑکوں کا نقشا رہ گیا
اچھے اچھے سب کھلونے بک گئے
شام کا سنسان میلا رہ گیا
محفلوں کی بھی فضا معلوم ہے
کیا ہوا جو میں اکیلا رہ گیا
غزل
آندھیوں کا خواب ادھورا رہ گیا
فاروق شفق