EN हिंदी
آندھیوں کا خواب ادھورا رہ گیا | شیح شیری
aandhiyon ka KHwab adhura rah gaya

غزل

آندھیوں کا خواب ادھورا رہ گیا

فاروق شفق

;

آندھیوں کا خواب ادھورا رہ گیا
ہاتھ میں اک سوکھا پتا رہ گیا

شہر تو ثابت ہوا شہر خیال
آنکھ میں بس اک دھندلکا رہ گیا

آ گئے بارش کے دن دیوار پر
اک ذرا سا رنگ کچا رہ گیا

کھلکھلا کر دھوپ پیچھے ہٹ گئی
ہوتے ہوتے اک تماشا رہ گیا

راستے اک دوسرے میں کھو گئے
ہاتھ میں سڑکوں کا نقشا رہ گیا

اچھے اچھے سب کھلونے بک گئے
شام کا سنسان میلا رہ گیا

محفلوں کی بھی فضا معلوم ہے
کیا ہوا جو میں اکیلا رہ گیا