عجیب ڈھنگ سے تقسیم کار کی اس نے
سو جس کو دل نہ دیا اس کو دل ربائی دی
بلال احمد
عجیب قید تھی جس میں بہت خوشی تھی مجھے
اب اشک تھمتے نہیں ہیں یہ کیا رہا ہوا میں
بلال احمد
ایک حالت تھی مری اور ایک حالت دل کی تھی
میری حالت تو وہی ہے دل کی وہ حالت گئی
بلال احمد
ایک کانٹے کی کھٹک سے دل مرا آباد تھا
وہ گیا تو دل سے میرے درد کی راحت گئی
بلال احمد
ہماری خاک تبرک سمجھ کے لے جاؤ
ہماری جان محبت کی لو میں جلتی تھی
بلال احمد
رس رہا ہے مدت سے کوئی پہلا غم مجھ میں
راستہ بناتا ہے آنسوؤں کا نم مجھ میں
بلال احمد
سنا ہے میں نے اذیت مزہ بھی دیتی ہے
سنا ہے دل کی خلش میں سکوں بھی ہوتا ہے
بلال احمد
الجھ رہا تھا ابھی خواب کی فصیل سے میں
کہ نارسائی نے اک شب مجھے رسائی دی
بلال احمد