رس رہا ہے مدت سے کوئی پہلا غم مجھ میں
راستہ بناتا ہے آنسوؤں کا نم مجھ میں
تجھ سے یوں شہنشاہا ہو تو کیا شکایت ہو
گاہ شور کرتے ہیں تیرے بیش و کم مجھ میں
میں وہ لوح سادہ ہوں جو تجھے عیاں کر دے
روشنی کے خط میں ہے اک نفس رقم مجھ میں
عمر کی اداسی کے دوسرے کنارے پر
ایک اجنبی چہرہ ہو رہا ہے ضم مجھ میں
طے ہوا کہ مرنا تو لازمی نتیجہ ہے
گھونٹ گھونٹ گرتا ہے زندگی کا سم مجھ میں
غزل
رس رہا ہے مدت سے کوئی پہلا غم مجھ میں
بلال احمد