زمیں نئی تھی عناصر کی خو بدلتی تھی
ہوا سے پہلے جزیرے پہ دھوپ چلتی تھی
نگہ بہلنے لگی تھی حسیں مناظر سے
بس ایک رنج کی حالت نہیں بہلتی تھی
اس اک چراغ سے چہرے کی دید مشکل تھی
نظر کی لو کبھی گرتی کبھی سنبھلتی تھی
ہمارے دشت کو وحشت نہیں ملی تھی ابھی
سو اس کے دل میں کوئی آب جو مچلتی تھی
سڑک کا سرمئی دل بچھ رہا تھا پیروں میں
وہ گل نژاد کہیں سیر کو نکلتی تھی
ہماری خاک تبرک سمجھ کے لے جاؤ
ہماری جان محبت کی لو میں جلتی تھی
غزل
زمیں نئی تھی عناصر کی خو بدلتی تھی
بلال احمد