EN हिंदी
تری تلاش میں نکلا تو راستا ہوا میں | شیح شیری
teri talash mein nikla to rasta hua main

غزل

تری تلاش میں نکلا تو راستا ہوا میں

بلال احمد

;

تری تلاش میں نکلا تو راستا ہوا میں
سو تیرے پاؤں میں ہوں راہ دیکھتا ہوا میں

چٹخ رہا ہوں تو اب اس میں کیا تعجب ہے
خود اپنے بوجھ تلے ہی رہا دبا ہوا میں

کہیں کھنچا رہا دنیا سے مثل دست فقیر
مثال دست تمنا کہیں بڑھا ہوا میں

عجیب قید تھی جس میں بہت خوشی تھی مجھے
اب اشک تھمتے نہیں ہیں یہ کیا رہا ہوا میں

یہ دیکھ غور سے پہچان اپنی کاری گری
کہ تیرے چاک سے اترا تھا کل بنا ہوا میں

بس ایک چوٹ لگی تھی کہ بند ٹوٹ گیا
اور اپنا آپ بہا لے گیا تھما ہوا میں

زمانے دیکھتے ہیں کتنی دیر چلتی ہے
بہت ڈٹا ہوا تو ہے بہت جما ہوا میں