EN हिंदी
اجل کی پھونک مرے کان میں سنائی دی | شیح شیری
ajal ki phunk mere kan mein sunai di

غزل

اجل کی پھونک مرے کان میں سنائی دی

بلال احمد

;

اجل کی پھونک مرے کان میں سنائی دی
جب اس نے شب کے تھکے دیپ کو رہائی دی

درون خاک رہا کاروان نکہت و رنگ
نمو نے صبر کیا آخرش دہائی دی

الجھ رہا تھا ابھی خواب کی فصیل سے میں
کہ نارسائی نے اک شب مجھے رسائی دی

ہوا کا صفحۂ لرزاں بنانے والے نے
مژہ کی نوک پہ اشکوں کی روشنائی دی

پھر ایک شب یہ ہوا خواب کے شجر سے پرے
ہزار رنگ کی آواز اک دکھائی دی

عجیب ڈھنگ سے تقسیم کار کی اس نے
سو جس کو دل نہ دیا اس کو دل ربائی دی

ثنا اسی کی جو محتاج حرف و صوت نہیں
کہ جس نے اشک کے لہجے میں نم نوائی دی