آنسوؤں سے لکھ رہے ہیں بے بسی کی داستاں
لگ رہا ہے درد کی تصویر بن جائیں گے ہم
عزم شاکری
آج کی رات دوالی ہے دیے روشن ہیں
آج کی رات یہ لگتا ہے میں سو سکتا ہوں
عزم شاکری
اگر سائے سے جل جانے کا اتنا خوف تھا تو پھر
سحر ہوتے ہی سورج کی نگہبانی میں آ جاتے
عزم شاکری
عجیب حالت ہے جسم و جاں کی ہزار پہلو بدل رہا ہوں
وہ میرے اندر اتر گیا ہے میں خود سے باہر نکل رہا ہوں
عزم شاکری
میں نے اک شہر ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا
لیکن اس شہر کو آنکھوں میں بسا لایا ہوں
عزم شاکری
میرے جسم سے وقت نے کپڑے نوچ لئے
منظر منظر خود میری پوشاک ہوا
عزم شاکری
سارے دکھ سو جائیں گے لیکن اک ایسا غم بھی ہے
جو مرے بستر پہ صدیوں کا سفر رکھ جائے گا
عزم شاکری
شب کی آغوش میں مہتاب اتارا اس نے
میری آنکھوں میں کوئی خواب اتارا اس نے
عزم شاکری
یہ جو دیوار اندھیروں نے اٹھا رکھی ہے
میرا مقصد اسی دیوار میں در کرنا ہے
عزم شاکری