EN हिंदी
عجیب حالت ہے جسم و جاں کی ہزار پہلو بدل رہا ہوں | شیح شیری
ajib haalat hai jism-o-jaan ki hazar pahlu badal raha hun

غزل

عجیب حالت ہے جسم و جاں کی ہزار پہلو بدل رہا ہوں

عزم شاکری

;

عجیب حالت ہے جسم و جاں کی ہزار پہلو بدل رہا ہوں
وہ میرے اندر اتر گیا ہے میں خود سے باہر نکل رہا ہوں

بہت سے لوگوں میں پاؤں ہو کر بھی چلنے پھرنے کا دم نہیں ہے
مرے خدا کا کرم ہے مجھ پر میں اپنے پیروں سے چل رہا ہوں

میں کتنے اشعار لکھ کے کاغذ پہ پھاڑ دیتا ہوں بے خودی میں
مجھے پتہ ہے میں اژدہا بن کے اپنے بچے نگل رہا ہوں

وہ تیز آندھی جو گرد اڑاتی ہوئی گئی ہے تبھی سے یارو
گلی کے نکڑ پہ بیٹھا بیٹھا میں اپنی آنکھیں مسل رہا ہوں

ابھی تو آغاز ہے سفر کا ابھی اندھیرے بہت ملیں گے
تم اپنی شمعیں بچا کے رکھو چراغ بن کر میں جل رہا ہوں