EN हिंदी
تیرگی میں صبح کی تنویر بن جائیں گے ہم | شیح شیری
tirgi mein subh ki tanwir ban jaenge hum

غزل

تیرگی میں صبح کی تنویر بن جائیں گے ہم

عزم شاکری

;

تیرگی میں صبح کی تنویر بن جائیں گے ہم
خواب تم دیکھو گے اور تعبیر بن جائیں گے ہم

اب کے یہ سوچا ہے گر آزاد تم نے کر دیا
خود ہی اپنے پاؤں کی زنجیر بن جائیں گے ہم

آنسوؤں سے لکھ رہے ہیں بے بسی کی داستاں
لگ رہا ہے درد کی تصویر بن جائیں گے ہم

لکھ نہ پائے جو کسی کی نیم باز آنکھوں کا راز
وہ یہ وعدہ کر رہے ہیں میرؔ بن جائیں گے ہم

گر یوں ہی بڑھتا رہا دن رات شغل مے کشی
ایک دن اس میکدے کے پیر بن جائیں گے ہم

اس نے بھی اوروں کے جیسا ہی کیا ہم سے سلوک
جو یہ کہتا تھا تری تقدیر بن جائیں گے ہم