تیرگی میں صبح کی تنویر بن جائیں گے ہم
خواب تم دیکھو گے اور تعبیر بن جائیں گے ہم
اب کے یہ سوچا ہے گر آزاد تم نے کر دیا
خود ہی اپنے پاؤں کی زنجیر بن جائیں گے ہم
آنسوؤں سے لکھ رہے ہیں بے بسی کی داستاں
لگ رہا ہے درد کی تصویر بن جائیں گے ہم
لکھ نہ پائے جو کسی کی نیم باز آنکھوں کا راز
وہ یہ وعدہ کر رہے ہیں میرؔ بن جائیں گے ہم
گر یوں ہی بڑھتا رہا دن رات شغل مے کشی
ایک دن اس میکدے کے پیر بن جائیں گے ہم
اس نے بھی اوروں کے جیسا ہی کیا ہم سے سلوک
جو یہ کہتا تھا تری تقدیر بن جائیں گے ہم
غزل
تیرگی میں صبح کی تنویر بن جائیں گے ہم
عزم شاکری