گھر میں چاندی کے کوئی سونے کے در رکھ جائے گا
وہ مرے چشمے میں جب اپنی نظر رکھ جائے گا
قید کر لے جائے گا نیندوں کی ساری کائنات
ہاں مگر پلکوں پہ کچھ سچے گہر رکھ جائے گا
سارے دکھ سو جائیں گے لیکن اک ایسا غم بھی ہے
جو مرے بستر پہ صدیوں کا سفر رکھ جائے گا
جگمگاتے جاگتے رشتوں کے سر کٹ جائیں گے
جب کوئی احساس کے پنجرے میں ڈر رکھ جائے گا
تیری فن کاری کا دنیا خود کرے گی اعتراف
سنگ ریزوں پر تو جب شیشے کے گھر رکھ جائے گا
غزل
گھر میں چاندی کے کوئی سونے کے در رکھ جائے گا
عزم شاکری