آج تک یاد ہے وہ شام جدائی کا سماں
تیری آواز کی لرزش ترے لہجے کی تھکن
عظیم مرتضی
اب امتیاز ظاہر و باطن بھی مٹ گیا
دل چاک ہو رہا ہے گریباں کے ساتھ ساتھ
عظیم مرتضی
بے خودی میں جسے ہم سمجھے ہیں تیرا دامن
عین ممکن ہے کہ اپنا ہی گریباں نکلے
عظیم مرتضی
بیتابیٔ حیات میں آسودگی بھی تھی
کچھ تیرا غم بھی تھا غم دوراں کے ساتھ ساتھ
عظیم مرتضی
درد محرومئ جاوید بھی اک دولت ہے
اہل غم بھی ترے شرمندۂ احساں نکلے
عظیم مرتضی
ایک درد ہستی نے عمر بھر رفاقت کی
ورنہ ساتھ دیتا ہے کون آخری دم تک
عظیم مرتضی
ہم درد کے مارے ہی گراں جاں ہیں وگرنہ
جینا تری فرقت میں کچھ آساں تو نہیں ہے
عظیم مرتضی
جو ہو سکے تو چلے آؤ آج میری طرف
ملے بھی دیر ہوئی اور جی اداس بھی ہے
عظیم مرتضی
خلوص نیت رہبر پہ منحصر ہے عظیمؔ
مقام عشق بہت دور بھی ہے پاس بھی ہے
عظیم مرتضی