چاہیئے کیا تمہیں تحفے میں بتا دو ورنہ
ہم تو بازار کے بازار اٹھا لائیں گے
عطا تراب
ہاں تجھے بھی تو میسر نہیں تجھ سا کوئی
ہے ترا عرش بھی ویراں مرے پہلو کی طرح
عطا تراب
عشق تو اپنے لہو میں ہی سنورتا ہے سو ہم
کس لیے رخ پہ کوئی غازہ لگا کر دیکھیں
عطا تراب
کیا کیا نہ پیاس جاگے مرے دل کے دشت میں
حسرت بھی ایک آگ ہے لاگے جو رات بھر
عطا تراب
تراش اور بھی اپنے تصور رب کو
ترے خدا سے تو بہتر مرا صنم ہے ابھی
عطا تراب
طوفان بحر خاک ڈراتا مجھے ترابؔ
اس سے بڑا بھنور تو سفینے کے بیچ تھا
عطا تراب
وہ اک سخن ہی ہماری سند نہ بن جائے
وہ اک سخن جو تمہاری سند نہیں رکھتا
عطا تراب
یوں محبت سے نہ ہم خانہ بدوشوں کو بلا
اتنے سادہ ہیں کہ گھر بار اٹھا لائیں گے
عطا تراب