رات وحشت سے گریزاں تھا میں آہو کی طرح
پاؤں پڑتی رہی زنجیر بھی گھنگرو کی طرح
اب ترے لوٹ کے آنے کی کوئی آس نہیں
تو جدا مجھ سے ہوا آنکھ سے آنسو کی طرح
اب ہمیں اپنی جہالت پہ ہنسی آتی ہے
ہم کبھی خود کو سمجھتے تھے ارسطو کی طرح
ہاں تجھے بھی تو میسر نہیں تجھ سا کوئی
ہے ترا عرش بھی ویراں مرے پہلو کی طرح
ناز و انداز میں شائستہ سا وہ حسن نفیس
ہو بہ ہو جان غزل ہے مری اردو کی طرح
غزل
رات وحشت سے گریزاں تھا میں آہو کی طرح
عطا تراب