آسمانوں میں بھی دروازہ لگا کر دیکھیں
قامت حسن کا اندازہ لگا کر دیکھیں
عشق تو اپنے لہو میں ہی سنورتا ہے سو ہم
کس لیے رخ پہ کوئی غازہ لگا کر دیکھیں
عین ممکن ہے کہ جوڑے سے زیادہ مہکے
اپنے کالر میں گل تازہ لگا کر دیکھیں
بازگشت اپنی ہی آواز کی الہام نہ ہو
وادئ ذات میں آوازہ لگا کر دیکھیں
غزل
آسمانوں میں بھی دروازہ لگا کر دیکھیں
عطا تراب